یہ واقعہ سنتے ہی مجھے وجہ سمجھ میں آگئی۔ بدنام زمانہ امریکی ایجنسی کا اہلکارریمنڈ ڈیوس رہا ہوچکا تھا اور اس حوالے سے میرے پاس مسلسل مختلف لوگوں کے ایس ایم ایس آرہے تھے۔ دن دہاڑے تین پاکستانیوں کو قتل کرنے والے ریمنڈ کو رہا کرنے پر ذمہ داروں کے لئے دل میں نفرت تو پیدا ہورہی تھی لیکن ساتھ ساتھ میرا ذہن کہیں اور بھی تھا۔ اوپر درج کئے گئے واقعے کے نامعلوم افراد کا کردار مسلسل میرے ذہن میں گردش کررہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ دنیا کہ کسی خطے میں کچھ بھی ہوجائے ہم پہلے اپنے لوگوں سے ہی بدلہ کیوں نکالتے ہیں۔ ڈنمارک کے ایک اخبار میں آنحضرت ﷺ کے خاکے چھاپنے کے بعد ملک میں جو کچھ ہوا وہ بھی ناقابل فراموش ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں کسی نے قابل اعتراض خاکے چھاپے اور یہاں ملک میں توڑ پھوڑ شروع ہوگئی۔ ڈینمارک کی ایک ٹیلی کام کمپنی کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا جب کہ عملے پر بھی تشدد کیا گیا(اس بات کے پیش نظر کہ اس میں کام کرنے والے تمام ملازمین پاکستانی تھے زیادہ تر مسلمان ہی تھے)۔ اس مسئلے پر پشاور میں نکلنے والی ایک احتجاجی ریلی میں ایک موبائل مال پر بھی حملہ کیا گیا اور توڑ پھوڑ کے دوران کئی موبائل فون غائب کرلئے گئے، یہ کونسا عشق تھا؟ صرف یہ ہی نہیں، ایسے کئی واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ لال مسجد کا واقعہ ہوتا ہے تو ہمارا وطن پرتشدد مظاہروں اور دہشتگردی میں گھرِجاتا ہے، امریکہ ہمارے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرتا ہے تو ہم اپنے لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں، ڈاکٹر عافیہ کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تو ہم ملک کی تمام اہم شاہراہیں مفلوج کردیتے ہیں، فرانس میں اسکارف پہننے پر پابندی لگ جائے تو ہم پریس کلب پر ڈیرہ ڈال لیتے ہیں، امریکی سفیر پاکستان آتا ہے اور ہم اپنا سینہ پیٹنا شروع کردیتے ہیں اوربینظیر بھٹو کو قتل کردیا جاتا ہے تو ملک میں سیکڑوں جانوں اور اربوں روپے کا نقصان کردیا جاتا ہے اور عاشورہ کے موقع پر دھماکہ ہوجائے تو ایک ہی رات میں کراچی جیسے شہر کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کو جلاکر راکھ کردیا جاتا ہے۔۔۔ ہم کون لوگ ہیں؟
میرے دوست کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے ایک بار پھر ہماری قوم کی اسی نفسیات کی جانب اشارہ کردیا ہے اور ریمنڈ کی رہائی کے بعد دماغ میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہوگئی ہیں۔ چیخ چیخ کر کہنے کو دل کرتا ہے، میں نے ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہیں کیا۔۔!!!