Monday, August 31, 2009

گل تے ساری منافع دی ایے۔۔۔۔

لوگ تو مرتے ہیں ، روز مرتے ہیں ، ہر چوبیس گھنٹوں میں 146000 لوگ مرتے ہیں ۔

میں اخباروں میں بھی خبریں پڑھتا ہوں‌، قتل کی ‘ اغوا کی، تو بس ایک سرسری سی نظر مار کر گزر جاتا ہوں ، بلکہ پچھلے دنوں‌ تو سوچ رہا تھا، بڑے دن ہوئے پاکستان میں‌کوئی خودکش دہماکہ نہیں ہوا۔ مگر اتنی جانوں کے ضیاع پر بھی اب افسوس نہیں‌ہوتا ۔ پہلے شاید ہوتا ہو، مگر اب تو عادت ہو گئی ہے، ایک بات۔

صحیح کہا تھا کسی نے : “ایک آدمی کی موت سانحہ ہے، اور سینکڑون کی صرف شماریات ”

دوسری بات اب تو عرصہ ہوا کہ مجھے لگا میں بے حس ہو گیا ہوں ۔لوگوں کو تکلیف میں مبتلا دیکھتا ہوں‌-تو کہتا ہوں‌میرا کیا لینا دینا ۔ کسی پہ مصیبت آئی تو یہ سوچ کر دل کو تسلی دے دی کہ اس کے اپنے کیے کا وبال آیا ہے۔ کوئی مر گیا تو سوچ لیا کہ وقت آگیا تھا، خدائی مشیت کے سامنے دم مارنے کی مجال کسے ۔ میں اغوا ہوئے لوگوں کو کم ہمت خیال کرتا ہوں ، بندے میں ہمت ہو تو کہاں سے نہیں بھاگ سکتا۔ اور مرنے والوں کو انکی قسمت کا لکھا۔

مگر آج دل اداس ہے ۔

آج پھر کوئی مر گیا ہے ۔ اور مرنے والا ہے32 سالہ محمد سعد خان، چار بچوں کا باپ ۔

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اب یہ راز عیاں ہو گیا کہ سکے کی چھنک کی آواز مظلوموں کے بین پر بھاری ہے۔
صدیاں گزر گئیں مگر اب بھی جس کی لاٹھی اسکی بھینس ، ضعیفی اب بھی جرم ہی ہے۔ نیچے دیے گئے ربطوں میں اس کہانی کو کور کیا گیا ہے۔

آرپکس کے مطابق :

پاکستانیت کے مطابق:

ٹیتھ ماسٹیرو کے مطابق :

ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی قیمت تو طالبان خودکش دھماکوں اور ڈرون حملوں کے بعد کوئی نہیں رہ گئی تھی اب جو رہی سہی عزت زندگی کیساتھ منسوب تھی، وہ بھی گئی۔ مگر افسوس زیادہ مجھے اب ایک عام آدمی کی بے بسی اور میڈیا واوں کی بےحسی پہ ہو رہا ہے ، پیسے والے کا جو جی چاہے کریں۔ اور ہم عوام، روئں مریں ۔ اس معاملے میں اوپر دیے گئے روابط پر آپ میڈیا کے کردار کے بارے میں‌پڑھیں‌گے تو آپکو بھی اندازہ ہوگا کہ، پیسہ سب کا باپ ہے، پیسہ سب پر بازی لے گیا۔ ادھر بندہ مر گیا ہے اور میڈیا اتنا چپ کیوں ہے۔ اب تو کسی نے ہاتھ نہین بندھ رکھے میڈیا کے، اب میڈیا کیوں نہیں بولتا۔ کیونکہ ان کا منافع مرتا ہے ۔ جس کمپنی سے انکو اشتہار ملتے ہیں ، اب انکے خلاف تو خبر نہیں‌شایع کر سکتے۔

ٹیتھ ماسٹیرو پر عمیر نے اس تبصرے میں ایک اچھا سوال اٹھایا کہ ہم پر حکومت کون کر رہا ہے، یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں یا سیاست دان ؟ سیاستدان کے خلاف تو خبر شائع کر دیتے ہیں ، یونی لیور کے خلاف کیوں‌نہیں ؟

آپ ٹیتھ ماسٹیرو والی کہانی میں پڑھ سکتے ہیں کہ آرپکس’ جہاں‌ پر یہ خبر سب سے پہلے شایع ہوئی ، کو ان کی ویب ہوسٹنگ کمپنی کی طرف سے ان کا تمام ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے کی دہمکی دی گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنی ویب سائٹ ایک دوسرے ہوسٹ پر منتقل کی ۔ اسکے علاوہ ٹیتھ ماسٹیرو کے مطابق کسی نیوز چینل نے اس خبر کو کوئی خاص کوریج نہیں دی ۔ اسکی خبر پہلے ڈان کے اخبار پر تھی، اب ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد کہیں جیو پر یونی لیور اور ماینڈ شیر والوں‌نے معافی مانگی ہے۔

فیض نے صھیح کہا تھا ‌:
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں ۔

پس نوشت :سب قاریئن سے گزارش ہے کہ اب آپ مراسلہ پڑھ چکے ہیں تواپنے قیمتی وقت میں سے 2 منٹ نکالیں اور مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت پڑھ لیں ۔

اپ ڈیٹ : پاک سیٹائر پر ایک بہت اچھی تجویز پیش کی گئی ہے کہ ہم پاکستانی بلاگر اپنے اپنے بلاگ کے ذریعے ‘ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئےان ملٹی نیشنل کمپنیوں پر دباو ڈالیں؛کیونکہ ایلتڑانک میڈیا تو اس سلسلے میں خاموش ہے،اور ایک ہفتے بعد اب کہیں‌جا کر پرنٹ میڈیا پر یہ خبر نظر آئی ہے۔



پاک سیٹایر سے ایک اقتباس

“مرحوم کے خاندان کیساتھ یکجہتی کے اظہار کی یہ ہماری حقیر سی کوشش ہے ۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیںً کہ یونی لیور اور مائنڈ شیر اس واقعے کی پوری ذمہداری لیں اور مرحوم کے اہل خانہ کی’ صرف قانونی طور پر نہیں بلکہ معاشرتی طور پر بھی اعانت کریں ۔اگر ان کمپنیوں‌کو پاکستان میں رہنا ہے تو انکو کاروباری چول بننے کی بجائے اپنی معاشرتی ذمہ داری کو نبھانا سیکھنا ہو گا “

اس معاملے میں پاکستانی انگریزی بلاگؤں کا کام قابل تعریف ہے۔ آرپکس نے اس خبر کو تب کوریج دی جب پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا والوں نے مجرمانہ خاموشی اپنائے رکھی۔ اور اس خبر کو اپنی ویب سایٹ کے بند کر دینے کی دھمکیوں پر بھی نہیں روکا، پھر ٹیتھ ماسٹیرو نے اس خبر کو کوریج دینا شروع کی اور اس کام کو بطریق احسن نبھایا پھر پرسوں پاکستانیت نے اس واقعے پر ایک آرٹیکل لکھا اور اب پاک سیٹایر بھی اس جدوجہد میں شامل ہے۔

میری رائے میں‌اب اردو بلاگروں کو بھی سامنے آنا چاہیے اور ہمیں اپنے قارئین تک اس واقعے پہنچانا چاہیے اور مرحوم کے خاندان کیساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیے۔ اگر ہم وقت یا معلومات کی کمی کی وجہ سے پوسٹ نہیں کر سکتے تو کم از کم اس معاملے کو اجاگر کرنے کیلے پاک سیٹائر نے جو تصویر جاری کی ہے وہ اپنے بلاگ پر لگا کر ان کو پاکستانیت‘ ٹیتھ ماسٹیرو ، پاک سیٹائر یا آرپکس کو لنک تو کر سکتے ہیں ۔

شکریہ

No comments:

Post a Comment